بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، عالمی فورم برائے تقریب مذاہب اسلامیہ کے سیکرٹری جنرل حجت الاسلام والمسلمین حمید شہریاری نے آج سنیچر (6 ستمبر 2025) کو دوپہر میں بین الاقوامی اسلامی مذاہب یونیورسٹی میں منعقدہ انتالیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے پریس بریفنگ میں ہفتہ وحدت کے موقع پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا: "اس سال حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ولادت با سعادت کے ڈیڑھ ہزارویں سالگرہ کے موقع پر منائی جا رہی ہے، اور امسال وحدت کانفرنس کا عنوان "نبی الرحمہ و امت واحدہ" ہے جو کل سے اپنا کام شروع کر چکی ہے۔"
انھوں نے وحدت کے تصور اور گذشتہ 39 سالوں کے دوران عالمی سفارتی حکمت عملی پر اس کانفرنس کے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "آج وحدت کا دائرہ انقلاب کے ابتدائی دور کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع ہو چکا ہے۔ تقریب مذاہب آج عملی اور سفارتی میدان میں ایک حقیقت بن چکی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ انقلاب کے دو رہنماؤں امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ الشَّرِیف) اور رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی حکمت عملی کے تحت اسلامی مذاہب کے تقریب آج مذہبی اور عوامی سفارت کاری کے میدان میں مجسم ہو چکی ہے۔
عالمی فورم برائے تقریب مذاہب اسلامیہ کے سیکرٹری جنرل نے داخلی وحدت و یکجہتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "فورم کے قیام کے آغاز ہی سے یہ مسئلہ درپیش تھا کہ پہلے ہمیں اپنے ملک میں اتفاق و اتحاد قائم کرنا چاہئے۔ داخلی وحدت کا سلسلہ انقلاب کے بعد امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ الشَّرِیف) کی طرف سے سنجیدگی سے آگے بڑھا اور ہم نے قومی وحدت کے علاوہ 12 روزہ جنگ میں بھی یکجہتی کا مظاہرہ کیا، جہاں شیعہ اور سنی بھائیوں نے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ـ اور دیگر اقوام کے ہمراہ ـ اتحاد کو عملی شکل دی۔
انھوں نے نے صہیو-امریکی محاذ کی مسلط کردہ 12 روزہ جارحیت کے بعد اہل سنت کے بزرگ علماء کی جانب سے پیش کئے گئے ہزاروں بیانات، خطابات اور جمعہ کے خطبات کی طرف اشارہ کیا، جو اسلامی نظام کے دفاع میں پیش کئے گئے اور اسے اسلامی وحدت کی دینی اور الہی تحریک کے لئے عظیم اعزاز قرار دیا۔
انھوں نے مزید کہا: "ملک کے سنی علماء اس فخر و اعزاز کا باعث بنے اور وہ صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ عینی اور عملی لحاظ سے اسلامی جمہوری نظام کی پشت پر کھڑے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ "علمائے اہل سنت کے بیانات، خطابات اور جمعہ کے خطبات کو ایک کتابی مجموعے میں مرتب کیا گیا ہے جس کو تین مجلدات میں شائع کیا جائے گا اور ہر جلد 1000 صفحات پر مشتمل ہوگی؛ ملک میں اسلامی وحدت کے ماتھے پر اعزاز کا نشان ہے۔"
علامہ شہریاری نے یاد دہانی کرائی: "آیت اللہ العظمی بروجردی (رحمہ اللہ) کے زمانے سے وسیع کوششوں کا آغاز ہؤا اور یہ سلسلہ اسلامی انقلاب کے بعد امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ الشَّرِیف) کے نظریۂ وحدت کی رو سے جاری رہا۔ امام نے شیعیان اہل بیت(ع) سے فرمایاکہ وہ مکہ میں حاضر ہوں تو اہل سنت کے علماء کے پیچھے نماز پڑھا کریں۔"
انھوں نے اس راہ میں وحدت مسلمین کے سلسلے میں رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے اقدامات کی طرف بھی اشارہ کیا: "کردستان میں اہل سنت کے اذان کی اجازت دینا، اہل سنت کے مقدسات کی توہین کو حرام قرار دینا، اور توہین کی حرمت کا فتوٰی جاری کرنا، ان ہی اقدامات میں سے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا: "ہماری وحدت علاقائی ہے اور ہمیں اپنے قریبی اسلامی ممالک کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں دو ارب مسلمان ہیں اور شیعہ صرف 15 فیصد آبادی ہیں۔ علاقائی اخوت ایک قرآنب مفہوم اور لازمی اور واجب ہے۔"
عالمی فورم برائے تقریب مذاہب اسلامیہ کے سیکرٹری جنرل نے ترکی، سعودی عرب، مصر، پاکستان اور ہندوستان جیسے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اخوت اور بھائی چارے کے احساس کو حکومتوں اور قوموں کے درمیان فروغ دینا چاہئے۔"
شہریاری نے 7 اکتوبر کے بعد کی وحدت کو اسلامی وحدت سے بالاتر قرار دیتے ہوئے کہا: "یہ وحدت لازماً اسلامی نہیں بلکہ انسانی ہے۔ انسانوں کے مشترکہ اقدار ہیں۔ انسان کی کرامت کا مطلب ہے کہ انسان قابل احترام ہے اور کسی کو بھی اس کی عزت اور آزادی کو پامال کرنے کا حق نہیں"۔
انھوں نے زور دے کر کہا: "اگر آج فلسطین کے معاملے پر عالمی اجماع و اتحاد قائم ہؤا ہے، تو اس کی وجہ انسانی عظمت و وقار ہے۔ امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی قیادت میں اسلامی ایران اور محور مقاومت ہی ہے جس نے اس وحدت و یکجہتی کو قائم کیا۔"
انھوں نے مزید کہا: "امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں کے مقابلے میں چین، روس اور ہند جیسے ممالک بھی سمجھ گئے ہیں کہ انہیں اٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔ ہم واحد ملک نہیں ہیں جس کو پابندیوں اور معاشی دباؤ کا سامنا ہے۔ ان حالات نے امریکہ کے خلاف عالمی وحدت کو مضبوط کیا ہے۔"
سیکریٹری جنرل عالمی فورم برائے تقریب مذاہب اسلامیہ نے کہا: "امسال وحدت کانفرنس "پیغمبر رحمت اور امت اسلامیہ" کے عنوان سے، 80 سے زیادہ ممتاز علماء، مفتیانِ اعظم، جماعتوں کے راہنماؤں اور سابق وزرائے اعظم کی موجودگی میں، منعقد ہو رہی ہے؛ 2800 افراد کو مدعو کیا گیا ہے اور 1000 افراد کانفرنس ہال میں حاضر ہونگے۔ نیز 392 مقالات موصول ہوئے ہیں جن میں سے 148 مقالات قبول کئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں، ان علماء کے لئے 200 ویبینارز مرتب کیے گئے ہیں جو براہ راست شرکت نہیں کر سکے۔"
حجت الاسلام والمسلمین شہریاری نے یاد دہانی کرائی: "اگرچہ حالیہ برسوں میں غیر ملکی مہمانوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، لیکن معیار کے اعتبار سے اس میں بہتری آئی ہے۔"
انھوں نے فلسطین کی حمایت نہ کرنے پر بعض اسلامی حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "بعض حکمران ناکام ہو گئے ہیں، لیکن آج حکومتوں کے سطح پر اسلامی یکجہتی بے مثال ہے۔ حتیٰ کہ متحدہ عرب امارات جیسے ممالک نے بھی اسرائیل کے خلاف نیا موقف اپنایا ہے۔"
شہریاری نے فورم کے مشن پر زور دیتے ہوئے کہا: "ہمارا بنیادی کام مباحثہ سازی (Discourse meaning) ہے۔ ہمیں وحدت کے تصور کو داخلی سطح سے علاقائی اور عالمی سطح تک بلند پھیلانا ہوگا؛ یہ عمل آج آیک قدر (value) میں تبدیل ہو چکا ہے۔"
انھوں نے انسانی وحدت کو عالمی انصاف اور امن کی کلید قرار دیتے ہوئے کہا: "وہ وقت ضرور آئے گا جب امام زمانہ (علیہ السلام) کی رہنمائی میں انسانی وحدت عملی شکل اختیار کرے گی۔"
شہریاری نے اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے اس سال کو "نبی الرحمہ کا سال" قرار دیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "آج پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی محبت عالمی سطح پر عقلیت اور انسانی وحدت میں بدل چکی ہے۔"
عالمی فورم برائے تقریب مذاہب اسلامیہ کے سیکرٹری جنرل نے افغانستان کے بارے میں کہا: "ہماری طالبان حکومت کے ساتھ اچھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور وزارتی سطح کے وفود نے شرکت کی ہے۔ افغانستان سے شیعہ وفود اور گروپ اجلاس میں شرکت کریں گے، لیکن طالبان کی جانب سے اب تک شرکت کے حوالے سے کوئی جواب موصول نہیں ہؤا ہے۔ ہم افغان عوام کو اپنا سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ قومی وحدت کے قیام کی کوشش جاری رکھیں گے۔ البتہ افغان شہریوں کی بے دخلی میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں جو ملک کے مسائل کی وجہ سے تھیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ